حوزہ نیوز ایجنسی|
دہلی اقلیتی کمیشن کے صدر ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے محکمہ صحت کے ڈائرکٹر/سکریٹری کو اپنے خط میں لکھا ہے: ”کورونا وائرس کے متاثرین کے بارے میں آپ کے روزانہ بلیٹن میں ”مرکز تبلیغ” کا خانہ بنا ہوا ہے۔ متاثرین کی اس طرح کی بلا سوچے سمجھے درجہ بندی سے گودی میڈیا اور ہندوتوا طاقتوں کے اسلام دشمن ایجنڈے کو فائدہ مل رہا ہے اور اسے بڑی آسانی سے پورے ملک میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ذریعہ بنالیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ پورے ملک میں مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی بات ہورہی ہے، ایک نوجوان کی دہلی کے شمالی مغربی ضلع کے گاؤں ہریولی میں لنچنگ ہوچکی ہے اور دوسروں پر حملے ہورہے ہیں ”۔
ھلدوانی میں ایک مسلم پھل فروش کی دکان بند کرایی گیی، اس لئے کہ وہ مسلمان ہے.تبلیغی جماعت سے تعلّق رکھنے والے کیی مسلمانوں پر حملے تیز ہوئے. ڈاکٹروں کے منہ پر تھوک دیا. ننگے گھوم رہے تھے. نرسوں کو فحش گالیاں دے رہے تھے.اسپتال میں پچیس پچیس روٹیاں کھا رہے تھے. میڈیا نے آییں اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس حد تک ذلیل کیا کہ تاریخ میں اسکی نظیر نہیں ملے گی.
چھ برس میں مسلمان دوئم درجہ کا شہری ہو گیا.
اقلیتی کمیشن کے خط میں مزید کہا گیا ہ عالمی تنظیم صحت کے ایمرجنسی پروگرام کے ڈائرکٹر مائک ریان نے ۶?اپریل کو کہا تھا کہ حکومتوں کو کورونا کے متاثرین کی مذہبی یا اسی طرح کسی اور بنیاد پر خانہ بندی نہیں کرنی چاہیے۔ دو دن بعد انھوں نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا کہ کورونا کے معاملے میں سیاست نہ کی جائے اور لوگوں کی درجہ بندی مذہب کی بنیاد پر نہ کی جائے۔ لیکن کیجریول حکومت نے ایسا نہیں کیا. تبلیغیوں کے لئے الگ سے خانہ بنایا گیا
چھ برسوں میں نہ صرف دیش بھکتی کی نیی تعریف گڑھی گیی بلکہ جمہوریت کے چوتھے ستوں کو گرا کر اس توازن کو ختم کر دیا گیا —
آئین کی دفعہ 124 (ع) میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص ملک کے خلاف لکھ کر، بول کر، یا پھر کسی بھی طرح کے اظہار سے بغاوت کرتا ہے، لوگوں کو اکساتا ہے، یا پھر نفرت پھیلانے کا کام کرتا ہے تو آئی پی سی کی کیس 124 (A) اس پر قائم ہے. اس قانون کے تحت، مجرم شخص کو قید کی سزا کے لئے زیادہ سے زیادہ سزا کا حکم گیا ہے۔ برطانوی حکومت میں یہ قانون بنا.جبکہ یہ قانون اب انکے یہاں بھی نہیں ہے۔
اس دفعہ کو لے کر سپریم کورٹ نے بھی کچھ فیصلے سنائے ہیں کہ کوئی بھی حرکت، حکومت یا نظام کے خلاف ہو یا پھر کوئی تنقید ہوتی ہے تو اسے غداری نہیں کہا جا سکتا. بلکہ اس بغاوت کی وجہ سے کوئی تشدد اور قانون کا مسئلہ پیدا ہو تبھی غداری کا کیس بنے گا. سپریم کورٹ نے 1962 میں کیدارناتھ بمقابلہ بہار ریاست کے کیس میں تاریخی فیصلہ دیا تھا۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے فیڈرل کورٹ آف انڈیا (برطانوی) سے اتفاق کیا. سپریم کورٹ نے کیدارناتھ کیس میں تاریخی فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت کی تنقید یا پھر انتظامیہ پر کیا گیا تبصرہ غداری کی زمرے میں نہیں آتا ہے۔مارچ 2015 میں، سپریم کورٹ نے اسے آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن 66A کو منسوخ کرتے ہوئے صاف کیا تھا کہ آئینی حدود کے باہر کی چیزوں کے لئے مناسب کارروائی کی جا سکتی ہے. قانون ساز سولی سوراب جی نے کہا کہ حکومت پر تنقید کرنے والے غدار نہیں ہو سکتے. ابھی حال ہی میں گجرات میں ریزرویشن کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریک شروع کرنے والے ہاردک پٹیل کو بھی اکتوبر 2015 میں گجرات پولیس کی جانب سے غداری کے کیس کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ ستمبر 2012 میں کاٹورنسٹ اسیم ترویدی کو بدعنوانی مخالف تحریک کے وقت ویب سائٹ پر آئین سے منسلک تصاویر پوسٹ کرنے کی وجہ سے اسی الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ تاہم، اس کے بعد سے الزامات واپس لے گئے تھے۔ 2007 میں بنائیک سین پر نکسل نظریات کو پھیلانے کے الزام میں غداری کا مقدمہ درج کر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن سپریم کورٹ کے حکم پر ضمانت مل گئی. 2010 میں اروندھتی رائے اور حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی پر کشمیر-ماونوازوں کے حق میں ایک بیان دینے کی وجہ سے غداری کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا. ایسے سیکڑوں واقعات ہیں. مگر زہریلی زبانیں بولنے والے آزاد ہیں اور حکومت کی پناہ میں ہیں.
میڈیا کی طرف سے دیے جانے والے زیادہ تر مخالف بیانات کا پس منظر یہ رہا،کہ دنگے بھڑکے نفرت کا پر تشدد ماحول پیدا ہوا۔ملک کے حالات خراب ہوئے۔یہ غداری ہے…. ملک کے مختلف حصّوں میں آگ لگی۔انسانیت داغدارہوئی — سامانوں کو نقصان پہچا۔یہ وہ بیانات تھے جنہونے گووند پانسرے،بھولکر،کلبرگی، پہلو خان،اخلاق کو مارنے میں نمایاں کردار ادا کیا.یہ وحشت اور دہشت کو زندہ کرنے والے ملک مخالف بیانات تھے جنہوں نے گاو رکشکوں کے متعدد مشتعل ہجوم کو پیدا کیا.انکے تشدد کے واقعات سڑکوں پر آج بھی عام ہیں….پاکستان اور قبرستان بھیجو جیسے نعرے دینے والے،قانون اور آئین کی شق سے ملک غدّاری اور دیش دروہ کے دائرے میں آتے ہیں۔کیونکہ ایسے ہر اشتعال انگیز بیان کے بعد فسادات،انسانوں کی ہلاکت،جان و مال کے نقصان جیسی خبریں سامنے آی ہیں۔اس مکمل جایزے پر آئیے تو میڈیا کی فروخت ایک سنسنی خیز اور خوفناک معاملہ بن کر سامنے آتا ہے۔زی نیوز اور انڈیا tv کا مکمل اپروچ قانون اور آیین کی دھجیاں اڑاتا ہوا نظر آتا ہے۔ان میں سے زیادہ تر چینلوں نے مخالف آگ بھڑکا کر انسانی جانوں کا زیاں کیا ہے۔اور آج بھی کر رہے ہیں.اگر میڈیا بک گیا تو عوام کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ اگر ترسیل اور ابلاغ پر حکومت دباو قایم کرتی ہے تو اخبارات اور ٹی وی چنیلز سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔اگر مکمل میڈیا سرکاری ایجنسیوں کو فایدہ پہنچاتا ہے تو ظاہر ہے، اس سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ کر پانا مشکل ہے۔نوٹ بندی سے جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن تک میڈیا عوام کو بے وقوف بناتی رہی۔ کروڑوں کی تعداد میں ملک میں بے روزگاری آ گئی۔ میڈیا نے بھروسے اور اعتماد کو توڑتے ہوئے ملک کو کمزور کرنے اور فسادات میں نمایاں کردار ادا کرنے کا کام کیا.یہ ملک سے غداری ہے۔گوری لنکیش کے بعد کٹیا کہنے اور مسلمانوں کو کتے کے پلے بتانے والے بیانات ملک دشمنی کے دائرے میں آتے ہیں۔کیونکہ اس کے بعد ملک میں جو پر تشدد ماحول قایم ہوتا ہے،اسکی نظیر ملنی مشکل ہے۔
امرتیہ سین،اروندھتی رائے جیسے سیکولر لوگوں کی بے چینی بتاتی ہے کہ ملک کہاں جا رہا ہے۔ میرا انڈیا کی موسیقی پر رقص کرنے والا عالمی شہرت یافتہ موسیقار رحمان اگر یہ کہتا ہے کہ یہ میرا انڈیا نہیں ہے،تو فاشسٹ طاقتوں کو چوٹ لگتی ہے. لیکن یہ آج کا سچ ہے کہ شاہین باغ سے لے کر تبلیغی جماعت تک میڈیا نے نفرت کا جو کاروبار اس ملک میں کیا ہے ب، اسے فراموش نہیں کیا جا سکتا.
کیا ہندوستان کا سیکولر طبقہ یا پچیس کروڑ مسلمان مل کر ان زہریلے چینلوں کا ایک ساتھ بائیکاٹ نہیں کر سکتے؟
مضمون نگار:مشرّف عالم ذوقی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔